Blog Detail

1-1 مالیاتی خواندگی کی اہمیت

1-1 مالیاتی خواندگی کی اہمیت

“اہم یہ نہیں ہے کہ آپ کتنا پیسہ کماتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ آپ کتنا بچاتے ہیں، یہ آپ کے لئے کتنا فائدہ 

مند ہے اور آپ اسے کتنی نسلوں کے لئے چھوڑ کر جارہے ہیں” – رابرٹ کیوساکی

بچت کے فن میں مہارت حاصل کرنا صرف اپنی تنخواہ کے چیک کے ایک حصے کو الگ کرنے سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے لیے مالیاتی نظم و نسق کی ٹھوس سمجھ  بوجھ ، اور اخراجات، بچت، سرمایہ کاری، اور قرض لینے کے بارے میں متوقع فیصلے کرنے کی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے، مالیاتی علم بہت سے لوگوں کی فطرت کا حصّہ نہیں ہے، جس کی وجہ سے ان کے لیے اپنے مالیاتی امور کو مؤثر طریقے سے سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔

‘Standard and Poor’ کے عالمی مالیاتی سروے کے مطابق، دنیا بھر میں صرف 33% افراد مالیات کے متعلق علم رکھتے ہیں۔ پاکستان میں یہ تعداد عالمی اوسط سے بہت کم ہے۔ بمشکل 13% آبادی کے پاس رسمی بینک اکاؤنٹ ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) کی جانب سے 2015 میں کیے گئے “Excess to Finance” سروے کے مطابق، پاکستان میں بالغ آبادی کا نصف سے زیادہ (53%) مالی اخراج کا شکار ہے۔ SBP کے مطابق مالیاتی اخراج سے مراد ، رسمی مالیاتی خدمات جیسے ادائیگی، بچت،قرض، اور بیمہ جیسی خدمات تک مزید رسائی کی ضرورت ہے جو عزت اور وقار کے ساتھ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی معیاری ہیں۔

اس سلسلے میں، صرف 2.4٪آبادی کو  روایتی مالیاتی اداروں کے ذریعے قرض تک رسائی حاصل ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت ابھی بھی مالیاتی انتظام کے نظریات جیسے بجٹ سازی، بچت اور سرمایہ کاری سے ناواقف ہے۔ نتیجے کے طور پر، بہت سے پاکستانیوں میں معاشی اور مالیاتی منصوبہ بندی سے متعلق بنیادی مہارتوں کی کمی ہے۔

سب سے کم مالی خواندگی کی شرح کے ساتھ 26 ممالک میں سے پاکستان کےسولہویں نمبر پر ہونے کی وجہ سے یہ ایک ملک گیر مسئلہ بن گیا ہے، خاص طور پر جب 63% سے زیادہ آبادی کی عمر 30 سال سے کم ہے۔ جب دوسرے ممالک سے مقابلہ کیا جائے تو مالی شمولیت کے بہت سے پیمانوں خاص طور پر بچت اور سرمایہ کاری سے متعلق پیمانوں پرپاکستان کی کارکردگی ناقص ہے۔اس تناظر میں، مالیاتی خواندگی میں اضافہ کے ذریعے مالیاتی اداروں پر عوامی اعتماد کو تقویت دینا، لوگوں کو زیادہ پیسہ بچانے اور طویل مدت میں مزید سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے۔

مالیاتی خواندگی کی یہ تربیت بہت کم عمری میں شروع ہونی چاہیے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ بچوں کے مالیات سے متعلق رویے، عادات اور اصول 6 سے 12 سال کی عمر کے درمیان بنتے ہیں۔ یہ رویے، خواہ مثبت ہوں یا منفی،برقرار رہتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتے ہیں، جو ان کی اپنی اور ان سے متعلق لوگوں کی زندگی پر دیرپا اثر ڈالتے ہیں۔ 

پاکستان کے ایک کم آمدنی والے گاؤں میں پرورش پانے والی ایک نوجوان لڑکی کے طور پر، سارہ نے ہمیشہ مالی عدم تحفظ کا بوجھ محسوس کیا۔ اس کی برادری کے بہت سے دوسرے خاندانوں کی طرح، اس کے والدین بھی اپنا پیٹ بھرنے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔

یہاں تک کہ سارہ نے یونیورسٹی جانے کے لیے اپنا گاؤں چھوڑا کیونکہ  اسے فنانشل مینجمنٹ پر کورس کرنے کا موقع ملا۔ اسے فوری طور پر اس بات نے متحیر کیا کہ وہ اپنی زندگی میں پہلے سے ہی مالیاتی نظریات کی بنیادی سمجھ بوجھ نہ رکھنے کی وجہ سے کتنا کچھ گنوا رہی تھی۔

ماضی کو یاد کرتے ہوئے سارہ خواہش کرتی ہے کہ اسے چھوٹی عمر میں مالی خواندگی کے بارے میں جاننے کا موقع دیا جانا چاہیےتھا۔ “میں پختہ یقین رکھتی ہوں کہ اگر میرے گاؤں کے پرائمری یا سیکنڈری اسکول میں مالیاتی انتظام کا ایک بنیادی کورس متعارف کرایا جاتا، تو میں اپنے والدین کے مالی مسائل میں بہت جلد مدد کر سکتی تھی کیونکہ وہ تعلیم یافتہ نہیں تھے۔” “میں یونیورسٹی میں حاصل کی گئی تعلیم پہ مشکور ہوں، لیکن کاش میں نے زندگی میں ان اہم تصورات کے بارے میں سیکھا ہوتا۔”

پاکستان میں ایسی لاکھوں کہانیاں ہیں جو تعلیمی نظام میں تبدیلی کا اشارہ دیتی ہیں۔ حکومت اور دیگر اداروں کا بنیادی تعلیم کے آغاز سے ہی مالیاتی تعلیم کی عوام تک رسائی میں کلیدی کردار ہے۔

عوام میں مالی خواندگی کو بہتر بنانے کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پاکستان میں مالیاتی خواندگی کے ماحولیاتی نظام کی حمایت اور بڑھوتری میں  پہل کی۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بینکنگ اینڈ فنانس (NIBAF) نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حکم پر نوجوانوں کے لیے نیشنل فنانشل لٹریسی پروگرام (NFLP-Y) کا آغاز کیا۔

نیباف نے پاکستان کے 68 سے زائد اضلاع میں ہزاروں بالمشافہ تربیتی نشستوں کا انعقاد کیا، جس میں 10 لاکھ طلباء نے شرکت کی اور 0.6 ملین تک آن لائن پلیٹ فارمز یعنی پ Pompak کا استعمال کیا گیا جس نے مالیاتی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ NFLP-Y کے اس مجموعی تجربے نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ بچوں میں مالی خواندگی کو اس حقیقت سے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ مالیاتی رویے، عادات اور اصول 13 اور 18 سال کی عمر یعنی چھٹی سےبارہویں جماعت تک بن جاتے ہیں۔ لہذا، بچوں کو کم عمری سے ہی پیسے اور پیسے سے متعلق مثبت عادات کے بارے میں سکھایا جانا چاہیے۔

اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے، NIBAF نے  (PAFEC) Pakistan Alliance for Early Childhood کی خدمات حاصل کیں تاکہ مالیاتی خواندگی (FL) کا نصاب تیار کیا جا سکے جس کو پہلی جماعت  سے بارہویں تک قومی نصاب میں شامل کیا جائے۔

PAFEC نے اس نصاب کو کیسے تیار کیا؟

سب سے پہلے PAFEC ٹیم نے پرائمری اور سیکنڈری سطحوں پر منتخب مضامین کے قومی نصاب کی ساخت پر مبنی مالیاتی خواندگی کے نصاب  کا سانچہ بنایا۔ اس کے بعد مالیاتی خواندگی کے 12 ستونوں یعنی پیسہ، اخراجات، آمدنی، خریداری، بچت، بینک کاری، سرمایہ کاری، مالیاتی منصوبہ بندی، مالیات، کاروباری نظامت، افراط زر، اور بیمہ  کا احاطہ کرتے ہوئے نصاب تیار کیا گیا۔ 

نصاب کے مؤثر ہونے کو یقینی بنانے کے لیے، پی اے ایف ای سی ٹیم نے نوجوانوں کے لیے NFLP-Y  اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ‘Stand Alone Courses’ سےتحریک اور نظریات لیے۔ انہوں نے مالیاتی خواندگی کے انضمام کے لیے موجودہ قومی نصاب کو بھی دیکھا اور جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کی مثالوں اور بہترین طریقوں کا استعمال کیا۔ ماہرین نے اس معلومات کو میٹرکس پر مبنی نصاب بنانے کے لیے استعمال کیا جس نے موجودہ نصاب میں مالی خواندگی کو بہتر بنانے کے طریقے تجویز کیے۔

NIBAF اور مضامین کے ماہرین سے رائے حاصل کرنے کے بعد، PAFEC ٹیم نے نصاب کو حتمی شکل دی۔ انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ یہ NFLP-Y کے مرکزی ہدف سے مطابقت رکھتا ہے اور مالی خواندگی کا نصاب اور تدریسی نقطہ نظر، معیارات  قومی تعلیمی سانچے کے مطابق ہیں۔ نصاب کے متعلق رہنما اصول اس طرح سے ترتیب دیے گئے کہ اس کو طلباء کے لیے دلچسپ اور پرکشش ، اساتذہ، والدین اور طلباء کے لیے متعلقہ اور کارآمدہونے کے ساتھ ساتھ اسکول کے نصاب کے مطابق بنایا جا سکے۔

مالی خواندگی سے متعلق کورسز کی شمولیت کے ساتھ ایک بہتر قومی نصاب اگلی نسل کو مالی طور پر خود مختار بننے کے لیے ضروری مہارتوں سے آراستہ کرنے کی طرف ایک اہم قدم ہو گا۔ مالیاتی علم طلباء کے لیے ابتدائی عمر سے ہی مثبت مالی عادات پیدا کرنے اور بہت سی  ایسی غلطیوں سے بچنے کی بنیاد رکھتا ہے جو زندگی بھر مالی مسائل کا باعث بن سکتی ہیں۔

طلباء کی مالی خواندگی صرف ان کو حساس مالی فیصلے کرنےکی اہلیت بخشنے سے کہیں زیادہ ہے۔ مالی خواندگی کی مہارتیں ان میں کئی مثبت عادات پیدا کر سکتی ہیں جو ان کے خاندانوں، برادریوں اور بالآخر قوم میں پھیلتی ہیں۔ یہ رجحان پیسے کی سم آلود ثقافت کو بدل دے گا اور ایک وقت میں ایک بچے کی نئی روایت قائم کر دے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *